وہ دو بچے جنہوں نے سی ائی اے کو ہیک کر کے فلسطین میں امن کی ڈیمانڈ کی

وہ دو بچے جنہوں نے سی ائی اے کو ہیک کر کے فلسطین میں امن کی ڈیمانڈ کی

 

اکتوبر دو ہزار پندرہ سی آئی اے ہیڈ کوارٹر ورجینیا۔ جان برینن کو ایک نامعلوم نمبر سے کال آتی ہے۔ کال کرنے والا کوئی بچہ معلوم ہوتا ہے جس نے جان کو بتایا کہ اس نے سی آئی اے کے سارے سسٹم کو ہیک کر لیا ہے۔ اس کال کو


مزاخ سمجھا جاتا اگر یہ کسی عام انسان کو کی جاتی۔


لیکن جان برینن اس وقت دنیا کی سب سے پاورفل انٹیلیجنس ایجنسی سی آیٔ اے کے ڈائریکٹر تھے جن کو فون کرنا تو دور کی بات ان کا پرسنل موبائل نمبر جاننا بھی ایک بہت بڑی بات ہے۔ یہ کہانی ہے ان دو بچوں کی جنہوں نے سی ایٔ اے کے سارے سسٹم کو ہیک کر کے ایک امریکا جیسی سپر پاور کو تگنی کا ناچ نچا دیا

تھا۔


وہ بچے کون تھے اور انہوں نے کیوں اور کیسے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ ناظرین جب کالر سے اس کی ڈیمانڈ پوچھی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ امریکا مڈل ایسٹ خصوصاً فلسطین میں حملے بند کرے اور دنیا کو پرامن رہنے دے۔



اس کی فون کال سے پہلے ہی سی آیٔ اے کو معلوم پڑ چکا تھا کہ ان کا سسٹم ہک ہو چکا ہے۔ یہ ہیکنگ سی آئ اے سمیت امریکا کو کیا نقصان پہنچا رہی تھی؟ اس کا اندازہ آپ کو آگے ہو جائے گا۔ کال بند ہوتے ہی پوری امریکن گورنمنٹ اور سی آئی اے حرکت میں آگئی اور کیونکہ ایک بچے نے اتنی بڑی انٹیلیجنس ایجنسی کو ہیک کیا تھا تو یہ سی آئ اے کے لیے کافی شرم کا مقام تھا۔


 آپ کو یہاں بتاتے چلیں کہ سی آئی اے کے ایجنٹس صرف اسی میں اپنی ہار مانتے ہیں اگر ان کی صرف شناخت ظاہر ہو جائے۔ یہاں تک کہ ورجینیا میں سی آئی اے ہیڈ کواٹرز کے اندر سٹاربکس کی ایک برانچ ہے جو آفیسرز کو جن کپس میں کافی دیتے ہیں ان

ان پر کوئی لوگو نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی ایجنٹ کا نام لکھا ہوتا ہے۔

 اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کپس کو ٹریس کر کے ایجنٹس تک نہ پہنچا جا سکے۔ اب آپ اندازہ لگا لیں کہ جو سی آئ اے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اتنی احتیاط کرتی ہے اس کے لیے ان کا سسٹم ہیک ہو جانا کتنی بڑی بات ہوگی۔


انویسٹیگیشن شروع ہوئی تو معلوم پڑا کہ یہ کال امریکا سے میلوں دور انگلینڈ کے شہر لیسٹر شںٔر سے ایک پندرہ سال کے بچے نے کی تھی۔ یہ بچہ خود کو کریکا کہتا تھا اور اس نے ایک ہیکنگ کمیونٹی بنا رکھی تھی جس کا نام


کریکاز وِد ایٹیٹیوڈ تھا۔

پر اس نے سی آئی اے کو ہیک کیسے اور کیوں کیا تھا؟


 اس کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں تھوڑا اور پیچھے دو ہزار آٹھ میں جانا پڑے گا جہاں سے کہانی کی شروعات ہوتی ہے۔ دو ہزار آٹھ میں امریکا کی اسٹیٹ ورجینیا میں ایک دوسرا لڑکا تھا جس کی پہچان ڈیفالٹ کے نام سے ہوتی ہے۔ اور یہ ویڈیو گیمز کا بہت شوقین تھا۔




اس نے ویڈیو گیمز میں جیتنے کے لیے گیمز کی پروگرامنگ میں گھس کر کچھ تبدیلیاں کرنا شروع کردیں۔ وہ آن لائن گیمز جیسا کہ کاؤنٹر سٹرائیک کو اپنے حساب سے تبدیل کرتا اور اس کے رولز کو تبدیل کرکے بڑی آسانی سے گیم جیت جاتا تھا۔ یعنی کہ وہ چیٹس بناتا تھا۔ وہ چیزوں کو اپنے حساب سے چلانے لگا اور یہ سب کچھ اس نے انٹرسٹ سے ہی سیکھا تھا۔


ڈیفالٹ نامی لڑکے کو اس سب کی انسپائریشن انونموس نامی ہیکنگ گروپ سے ملی تھی جو کہ دو ہزار آٹھ میں کافی فیمس ہو چکا تھا۔ انونیمس گروپ اس وقت اکثر نیوز کی ہیڈ لائنز بنا دیتا تھا۔ یہ گروپ اپنی آواز اٹھانے کے لیے بڑی بڑی ویب سایٹس ہیک کرتا اور ان پر اپنی مرضی کا میسج لکھ دیتا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ڈیفالٹ انونیمس سے کافی امپریس ہوا اور پھر اس نے بھی ہیکنگ کی دنیا میں قدم بڑھانا شروع کردیئے۔ ڈیفالٹ نے آہستہ آہستہ چھوٹی موٹی ویب سایٹس ہیک کرنا شروع کردی لیکن وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اس کو بھی کسی ہیکنگ گروپ کی ضرورت تھی۔ لہذا ڈیفالٹ انون سیٹ نام


کے ایک ہیکنگ گروپ شامل ہوگیا۔

 یہ گروپ پہلے بھی کئی ویب سائٹس ہیک کر چکا تھا لیکن یہ ہکنگ زیادہ تر سیاسی مقصد کے لیے کی جاتی تھی۔ انون سیٹ گروپ بوٹ نیٹ کا استعمال کرتا تھا یعنی وہ انٹرنیٹ پر وائرس بنا کر پھیلاتے تھے اور جس بھی کمپیوٹر میں وہ وائرس جاتا وہ انون سیٹ کے کنٹرول میں آجاتا تھا۔


 وہ تمام کمپیوٹرز جن میں وائرس ہوتا ہے اس کو بوٹ جبکہ کمپیوٹرس کے اس پورے نیٹ ورک کو بوٹ نیٹ کہتے ہیں۔ کیوں کہ انون سیٹ کا ممبر ہونے کی وجہ سے ڈیفالٹ کے پاس بھی اس بوٹ نیٹ کا ایکسیس تھا اور اس نے دیکھا کہ اس بوت نیٹ میں ایک کمپیوٹر ایسا ہے جو کینیڈا کے ایک میڈیکل کالج کا تھا۔ ڈیفالٹ نے اس کمپیوٹر پر تھوڑی سی محنت کی اور اس میڈیکل کالج کے مالی ریکارڈز تک رسائی حاصل کر لی۔


 اس نے دیکھا کہ اسکول نے نو ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم سٹوڈنٹ سے ابھی وصول کرنی تھی اور یہ سارے ریکارڈز اب ڈیفالٹ کے پاس آچکے تھے جو کہ اس نے کالج کے کمپیوٹر سے ڈیلیٹ کر دیے۔ ڈیفالٹ کی پہلی ہیکنگ کامیاب ہو چکی تھی اس کی وجہ سے میڈیکل کالج کا سارا نظام دھرم بھرم ہوگیا۔ یہ پہلی ہیکنگ تو اس نے شرارت میں کی تھی لیکن اگلی ہیکنگ غصے میں کی گئی ۔


دو ہزار چودہ میں ڈنمارک کی گورنمنٹ نے ایک شرمناک لو پاسس کیا جس کے مطابق جانوروں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاسکتی ہے۔ یہ خبر پوری دنیا میں انیمل رائٹ اکتیوسٹ کو بہت بری لگی۔ ڈیفالٹ کے پاس خود بھی ایک کتا تھا جس کو وہ بہت پیار کرتا تھا۔ لہزا ڈیفالٹ نے غصے میں آکر اپنے گروپ کے ساتھ مل کر ڈنمارک کی آفیشل ویب سائٹ کو ہیک کیا اور اس پر بڑا بڑا لکھ دیا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی سرکار جانوروں سے زیادتی کی اجازت دیتی ہے؟ نہ صرف اتنا بلکہ ڈیفالٹ نے بوٹ نیٹ کا استعمال کر کے اس آئین کے فوور میں جتنی بھی ویبسایٹس بنائی گئی تھیں، ان پر اٹیک کر کے ان کو بھی بند کر دیا۔ ڈنمارک کی آفیشل ویب سائٹ ہیک ہونے کی وجہ سے یہ بات پھیل گئی اور پوری دنیا میں ڈنمارک کے اس قدم کی مذمت ہونے لگی۔ لوگ ڈینمارک کو برا بھلا کہنے لگے۔ آخر کار ڈنمارک کی سرکار یہ پریشر برداشت نا کر پائ اور اگلے ہی سال ان کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ ڈیفالٹ اپنے مقصد میں پہلی بار کامیاب ہوچکا تھا پر لوگ اس کا کریڈٹ انونموس گروپ کو دینے لگے کیونکہ اس وقت یہی ہیکنگ گروپ ہیڈلائنز بناتا تھا۔ یہ بات ڈیفالٹ کو بالکل پسند نہیں آئی کہ اتنا بڑا کارنامہ کیا تو اس نے لیکن اس کا کریڈریڈ کوئ اور لے رہا ہے۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا کام جاری رکھا۔


دوسرے ہیکرز کی طرح ڈیفالٹ بھی اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ ہیکنگ کی وجہ سے اگر کبھی وہ پکڑا گیا تو اس کا انجام کافی بھیانک ہو سکتا ہے۔ وہ عام طور پر اپنے گھر کا وائفائی استعمال نہیں کرتا تھا بلکہ اس نے ایک سیٹلائٹ کنکشن خرید رکھا تھا۔

جس کو اس نے اپنے گھر سے کافی دور انسٹال کیا ہوا تھا اور وہاں سے اپنے گھر تک ایک پرائیویٹ نیٹ ورک کے ذریعے وہ انٹرنیٹ استعمال کرتا تھا۔ اس کا کمپیوٹر بھی کافی سیکیور تھا۔ یہاں تک کہ اس سیکورٹی کی وجہ سے اس کا کمپیوٹر آن ہونے میں تیس منٹ لگا تھا۔ مگر اپنی پرائویسی کی خاطر اس کو اتنا انتظار کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔


خیر ابھی تک آپ نے اس کہانی کے صرف دو کریکٹرز کے بارے میں جانا ہے۔ ایک ہے کریکا جو کہ انگلینڈ اور دوسرا ڈیفالٹ جو امریکہ میں رہتا تھا۔ دو ہزار تیرہ سے پہلے یہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ پر ایک واقعہ ہوا جس کی وجہ سے یہ دونوں ایک ہوگئے۔ ایڈورڈ، جوزف، سنوڈن نیشنل سیکورٹی ایجنسی میں کمپٹیٹر انٹیلیجنس کنسلٹنٹ کی حیثیت سے تھے۔

تھے ایک امریکن گورنمنٹ کے پروجیکٹ پہ کام کرتے سمے ان کو یہ معلوم ہوگیا کہ سی آئی اے ہر انٹرنیٹ یوزر کا ڈیٹا اور اس کی پرائیویٹ انفارمیشن اپنے پاس رازداری سے رکھتی ہے اور پھر اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے جبکہ یوزر کو اس بات کا علم نہیں ہوتا۔

ایڈورڈ سی آئی اے کے اس راز سے پردہ اٹھانا چاہتے تھے مگر دوسری طرف ان کو یہ ڈر بھی تھا کہ امریکا میں رہتے ہوئے یہ کام نہیں کیا جا سکتا۔ یا تو ان کو مار دیا جائے گا یا پھر سیکرٹ انفارمیشن لیک کرنے کے جرم میں ان کو جیل بھیج دیا جائے گا۔ اسی لیے ایڈورڈ نے چھٹی لی اور ہانگ کانگ چلے گئے جہاں انہوں نے جرنلسٹ کے سامنے امریکا کے اس سیکرٹ کو دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ یہ خبر لیک ہوتے ہی پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ لوگوں میں غصہ پایا جانے لگا کہ ان کا ڈیٹا ان کی اجازت کے بغیر استعمال ہو رہا ہے اور ان کی نقل و حرکت پر پل پل نظر رکھی جا رہی ہے۔

اسی بات پر ری ایکشن کے طور پہ ڈیفالٹ اور کریکا کا آپس میں کنٹیکٹ ہوا۔ دونوں نے امریکن گورنمنٹ اور سی آئی اے کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ سی آئی اے کو احساس دلانا چاہتے تھے کہ لوگوں کی پرسنل انفارمیشن جب لیک ہوتی ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔


کریکا اور ڈیفالٹ کا مقصد ایک تھا، ڈیفالٹ اپنی عوام کی پرائیوسی ختم کرنے پر و س ا سے بدلہ لینا چاہتا تھا جبکہ کریکا غزہ پر کئے جانے والے حملوں کا بدلہ لینا چاہتا تھا یعنی دونوں کا دشمن امریکن سرکار تھی، سب سے پہلے انہوں نے امریکن نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلپر کا فون نمبر پبلک کر دیا اور کسی کو بھی صرف گوگل کرنے سے ان کا فون نمبر مل جاتا۔ اب وہ کسی اور ہائی پروفائل آدمی کو ہیک کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برنن کو ہیک کرنے کا مشن سنبھال لیا۔ کریکا نے انٹرنیٹ پر جان کے بارے میں سرچ کرنا شروع کیا تو اس کا ایک

پبلک فون نمبر سامنے آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ نمبر وریزون کا تھا جو کہ ایک امریکن موبائل آپریٹر ہے۔ اس نے وریزون کی انٹرنل ٹیک ٹیم کو اسی کمپنی کا ایمپلائی بن کر فون کیا اور کہا کہ وہ ایک کسٹمر کی مسئلہ حل کرنے کے لیے ان سے رابطہ کر رہا ہے۔ کیونکہ اس کے سسٹم میں کوئی ٹیکنیکل مسئلہ ہے۔ 

ور یزون کی ٹیم نے اس کی شناخت تصدیق کرنے کے لیے پن کوڈ مانگا جو وہ پہلے ہی ہیک کر کے معلوم کر چکا تھا۔ تصدیق کے بعد وریزون نے جان برنن کی ذاتی معلومات کریکا سے شیئر کر دی۔ اب کریکا کے پاس جون برینن کا اکاؤنٹ نمبر بیک اپ موبائل نمبر ایڈریس اور اس کے بینک کارڈ کے آخری چار ہندسے بھی موجود تھے۔

اب اگلا سٹیپ برنن کا ای میل ہیک کرنا تھا، اس نے معلوم کیا کہ برننگ یاحو یا جی میل کے بجائے اے او ایل نامی کمپنی کا ای میل استعمال کرتا ہے۔ اس نے اے او ایل سپورٹ ٹیم کو کال کیا اور کہا کہ میں اپنا پاسورڈ بھول گیا ہوں اس کو ریسیٹ کروانا ہے۔ اے او ایل کے سپورٹ ممبر نے کنفرم کرنے کے لیے بینک کارڈ کے آخری فور ڈجٹس پوچھے جو کریکا کے پاس پہلے سے موجود تھے۔ اس طرح کریکا نے فوراً اس کے ای میل ایڈریس کا ایکسس پالیا۔ اب سی آئی اے کے ڈائریکٹر کا پرسنل ای میل اکاؤنٹ کریکا کے پاس تھا۔

اس نے جان برن کا پرائیویٹ ای میل کھولا جس میں سارے امپورٹنٹ اور ٹاپ سیکرٹ ڈاکیومنٹس موجود تھے۔ دوسرے سی آئی اے آفیسرز کا ڈیٹا ان کے سوشل سیکورٹی نمبرز اور گورنمنٹ سے ملنے والی انسٹرکشنز، تب تک برینن کو بھی خبر ہو چکی تھی کہ اس کا ای میل اکاؤنٹ ہیک ہو چکا ہے اور اس نے فوراً اپنا اکاؤنٹ بند کروا دیا مگر اب کافی دیر ہو چکی تھی۔

کیونکہ کریکا یہ سارا ڈیٹا اپنے پاس ڈاؤنلوڈ کر چکا تھا۔ 


کریکا نے ایک ایک کر کے سارے آفیشل ڈاکومنٹس پبلک کرنا شروع کر دیے جس سے پورے امریکہ میں ایک کہرام مچ گیا۔ پوری دنیا میں سی آئی اے کی بدنامی ہو رہی تھی۔ اب ان کے لیے ہیکرز کو پکڑنا مجبوری بن چکا تھا۔ وہ ہر حال میں جلد از جلد ان کو پکڑنا چاہتے تھے۔

لیکن وہ کوئی بھی سوراخ حاصل نہیں کر پائے۔ جان برینن کو فون کرنے کے کچھ دنوں کے بعد کریکا نے ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کے نو ہزار جبکہ ایف بی آئی کے بیس ہزار ایجنٹس کی پرسنل انفارمیشن سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد کریکا آرام سے اپنی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ شاید اسے پکڑنا نہ ممکن ہے لیکن۔

دوسری طرف ڈیفالٹ جو کہ امریکہ کا ہی ریذیڈنٹ تھا وہ اب پریشان رہنے لگا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ پکڑا گیا تو اس کی شامت آنے والی ہے۔ شاید وہ کبھی پکڑے نہ جاتے اگر ڈیفالٹ سے یہ غلطی نہ ہوتی۔ اس نے نشے میں اپنے دوست کو بتا دیا کہ سی آئی اے کو ہیک کرنے کے پیچھے اسی کا


ہاتھ ہے۔

بس یہ غلطی ڈیفالٹ اور کریکاٹ دونوں کو لے ڈوبی چند دنوں کے بعد ایف بی آئی نے ڈیفالٹ کے کمرے میں چھاپہ مارا اور اس کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ انٹیروگیشن کے دوران کریکا کا نام بھی سامنے آیا جس کو بریٹش پولیس کی مدد سے اریسٹ کروا لیا گیا۔ کریکا کا اصل نام کین گمبل جب کہ ڈیفالٹ کا نام جسٹن گرے لیورمین ہے کم عمر ہونے کی وجہ سے کریکا کو دو سال کی قید سنائی گئی جبکہ ڈیفالٹ جو کہ ڈائریکٹلی سی ائی اے کی ہکنگ میں شامل نہیں تھا اس کو پانچ سال کی سزا سنائی جاتی ہے۔ دونوں آج جیل سے آزاد ہیں اور سائبر سیکورٹی میں اپنا


کیرئیر آگے بڑھا رہے۔

آپ کیا سمجھتے ہیں دونوں نے ٹھیک کیا یا غلط۔

Comments