ٹائٹن آبدوز کی تباہی
ٹائٹن آبدوز کی تباہی
ٹائٹینک جہاز کے ملبے تک جانے والی چھوٹی آبدوز بحریانوس میں لاپتہ ہو گئی ہے۔ یہ سب تقریبا سطح سمندر سے آٹھ کلومیٹر پانی کے نیچے گئی تھی۔ لیکن اب اس سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔اس آبدوز میں چھیانوے گھنٹے یا صرف چار دن کی آکسیجن موجود تھی۔ امریکہ اور کینیڈا کے حکام کی جانب سے مسافروں کو ڈھونڈنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس آبدوز میں پانچ افراد سوار تھے جن میں دو کا تعلق پاکستان کے بڑے business گروپ سے ہے شہزادہ داؤد اور ان کا بیٹا سلیمان بھی اسی آبدوز میں موجود ہیں۔ شہزادہ داؤد معروف کاروباری family داؤد گروپ اور پاکستان میں سب سے بڑی کمپنی اینگرو کے مالک ہیں۔ وہ گروپ کے بانی سیٹھ احمد داؤد کے پوتے ہیں۔ یہ خاندان ایوب دور کے بائیس امیر ترین خاندانوں میں شامل تھا۔ شہزادہ داؤد پاکستان کے سب سے بڑے ادارے اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین بھی ہیں۔ یہ کیلیفورنیا میں قائم ایک تحقیقاتی ادارے سٹی کے ٹرسٹی بھی ہیں۔ یہ ادارہ خلائی مخلوق کی تلاش کا کام کرتا ہے۔ باقی تینوں بھی انتہائی مشہور اور ارب کھرب پتی لوگ ہیں۔ جس آبدوز میں یہ لوگ سمندر کی تہہ میں گئے تھے وہ اوشین gate نامی کمپنی کی تیار کی ہوئی ہے۔ یہ آبدوز فوجی آبدوز کے مقابلے میں زیادہ گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکہ کے پاس جدید آبدوزیں ہیں جو کہ maximum دو سے تین ہزار میٹر کی گہرائی تک جا سکتی ہیں۔ لیکن یہ آبدوز چار ہزار میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس چھوٹی آبدوز کا نام ٹائٹن ہے۔ یہ ٹائٹینیم اور کاربن فائبر سے تیار کی گئی ہے۔ اس میں گہرے سمندر کے دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ موجود ہے۔ اس میں ہر ممکن طریقے کے بہترین انتظامات کیے گئے تھے۔ یہ روزانہ کی بنیاد پر آٹومیٹک طریقے سے اپنے اندر پیدا ہونے والی خرابیوں کا خود بخود جائزہ لے سکتی تھی۔ اس سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اس آبدوز کے تقریبا پچاس کے قریب ٹیسٹ کیے گئے۔ اس آبدوز کو ٹائٹینک جہاز جتنی گہرائی میں بار بار بھیج کر اس کے حفاظتی نظام کو چیک کیا گیا تھا۔ یہ تقریبا اکیس فٹ لمبی ہے اس کو ہائی ڈیفینیشن کیمروں اور ملٹی بیالات سے لیس کیا گیا ہے یہ خود سے navigate نہیں کر سکتے۔ اسے اوپر سے ایک جہاز کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے حیران کن طور پر اسے game کھیلنے والی joy stick کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا تھا سمندر کے اوپر نگرانی کرنے والے اس
کے جہاز کو اس کا سگنل نہیں مل رہا جس کی وجہ سے اس کے لاپتہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔
کمپنی خود بھی اسے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیونکہ اس کے پاس امریکن اور کینیڈین نیوی سے زیادہ اس کی معلومات ہیں یہ انتہائی جدید آبدوز ہے یہ اتنی جدید ہے کہ اس میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی دو ہزار اُنیس میں اس کو تیار کر لیا گیا تھا لیکن اس کی منظوری ابھی تک نہیں ہو سکی۔ اس کی وجہ بھی بڑی دلچسپ ہے کہ اس میں جو ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے اس کی certification اور standard کا نظام ہی موجود نہیں اس کے لیے حکومتی سطح پر نئے standard قائم کرنے میں مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔ پہلی بار دو ہزار اکیس میں سطح سمندر سے سمندر کی تہہ میں گئی تھی۔ اس وقت مسافروں سے فی کس ایک سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر وصول کیے گئے تھے۔ مجموعی طور پر اس کا ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کا تیسرا وزٹ ہے۔ اور اس کی ٹکٹ اس وقت تقریبا ڈھائی لاکھ ڈالر کے قریب بنتی ہے یعنی یہ دونوں پاکستانی جن کا تعلق اینگرو کمپنی سے ہے پانچ لاکھ ڈالر دے کر اس موت کے منہ میں گئے۔ اس آبدوز کا مشن کیا تھا اس مشن پر بات کرنے پہلے ہم back ground پر آپ کو ٹائٹینک جہاز کا بتا دیتے ہیں ٹائٹینک ایک انتہائی لگژری مسافر بردار بحری جہاز تھا۔
انیس سو بارہ میں یہ لندن سے نیویارک جاتے ہوئے ایک آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گیا تھا۔ اس حادثے میں پندرہ سو کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اس واقعے کو بھولتے گئے لیکن انیس سو ستانوے میں اس میں اس وقت لوگوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا جب جیمز کیمروں نے ٹائٹینک کے نام سے فلم بنائی ٹائٹینک کا ملبہ کیپ کوٹ سے تقریبا نو سو میل دور مشرق میں موجود ہے۔ یہ لگ بھگ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر کی گہرائی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں سطح سمندر سے اس کی گہرائی چار کلومیٹر کے قریب ہے اتنی گہرائی میں جانا عام انسانوں کے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ سمندر کی تہہ میں آپ جتنا جاتے جائیں گے اتنا ہی پانی کا دباؤ بڑھتا چلا جائے گا۔ انسانی جسم چند سو میٹر کی ہی گہرائی برداشت کر سکتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے ٹائٹینک کے ملبے تک بہت کم لوگ ہی پہنچ پاتے ہیں اور اس کے ملبے کا نظارہ کر پاتے ہیں۔ ٹائٹنس اور بنانے والی کمپنی اوشن گیٹ کا مقصد ٹائٹینک کی حالت کا جائزہ لینا، ڈوبے ہوئے جہازوں کی وجہ سے سمندر کے ماحولیاتی نظام میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو جانچنا ہے۔ ٹائٹینک کے ملبے کا بڑا حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ اسے دھات کھانے والے بیکٹریا کے شدید حملے کا سامنا ہے۔ یہ بیکٹریا روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں کلو گرام
لوہے کو کھا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے پیش گوئی کی ہے کہ ٹائٹینک کا ملبہ آئندہ کچھ دہائیوں میں مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔ ٹائٹن کے ذریعے ٹائیٹینک جہاز کا خاکہ بھی بنایا جاتا تھا۔
اس سے سائنسدانوں کو گہرے سمندر میں پائے جانے والے ان جہازوں کے ملبے پر تحقیق اور سمندر کے نئے رازوں کا پتہ چلتا تھا۔ اب تمام تر کوششوں کے باوجود اس سبمیرین کا کوئی پتہ نہیں لگایا جا سکا۔ ماہرین کی جانب سے اسے انتہائی تشویش ناک قرار دیا جا رہا ہے۔ عام طور پر ایک آبدوز کو ہر چند منٹوں میں سگنل بھیجنا چاہیے لیکن اس کا سگنل نہیں آیا آخر کیا وجہ ہے کہ سگنل نہیں آ رہا۔ آبدوز میں خرابی اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ آلات کی بندش یا engine کا بند ہونا بھی سگنل کی راہ میں رکاوٹ ہو سکتا ہے۔ اگر یہ پانی کے بہت زیادہ دباؤ والے علاقے میں چلی گئی تو اس کا بچنا ناممکن ہو گا۔
اگر یہ ٹائٹینک ملبے میں پھنس گئی تو اس کا بچنا اور بھی زیادہ ناممکن ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں سنار سسٹم کے لیے ٹائٹینک اور ٹائٹن میں فرق کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ جس کی وجہ سے امدادی ٹیمیں بھی اسے ڈھونڈ نہیں پائیں گی۔
اپنے میزبان عبیدالرحمن کو دیجئے اجازت اللہ حافظ۔
Comments
Post a Comment